پاک افغان تعلقات …اصل جھگڑا ہے کیا؟

 ہمارے تعلیمی نصاب میں جس طرح تاریخ کے ساتھ مذاق کیا گیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل کو بہت سے اہم

 
سرخ لکیر ڈیورنڈ لائن کو ظاہر کرتی ہے۔ (نقشہ بشکریہ Globalsecurity.org)

تاریخی حقائق سے آگاہی نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ آج درپیش بہت سے مسائل کا صحیح طور پر ادراک نہیں کر پاتی۔ تاہم سوشل میڈیا نے یہ مسئلہ حل کرنے میں کسی حد تک آسانی پیدا کر دی ہے کہ وہ گنے چنے لوگ جو تاریخ کو صحیح انداز میں پڑھ پائے ہیں وہ نئی نسل کو مطالعہ پاکستان (جسے میں مغالطہ پاکستان کہتا ہوں) کے کنویں سے باہر نکال سکتے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں خرابی کو بھی بہت سے لوگ اس کے صحیح تاریخی تناظر میں نہیں دیکھ پاتے کیوں کہ انہیں دونوں ملکوں کی تاریخ سے آگاہی ہی نہیں ہے۔ چنانچہ وہ دونوں کے جھگڑے کو بس روس کے حملے اور پاکستان کی طرف سے امریکی سی آئی اے کی مدد سے جہاد کا کھیل کھیلنے تک ہی دیکھ پاتے ہیں۔ حالانکہ یہ جھگڑا کہیں زیادہ پرانا ہے۔ جن کو یہ معلوم ہے کہ یہ جھگڑا پرانا ہے ان میں سے بھی کم ہی لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ اس کی اصل جڑ کہاں ہے۔

ان سوالوں کا سیدھا سا جواب ہے پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجود ڈیورنڈ لائن (Durand Line) ۔ پاکستان میں چونکہ طالب علموں میں سوال کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی اس لئے کم ہی بچے یہ سوال اٹھا تے ہوں گے کہ پاکستان کی باقی سرحدوں کے نام تو نہیں رکھے ہوئے تو افغانستان کے ساتھ سرحد کا نام ڈیورنڈ لائن کیوں ہے۔ حالانکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جھگڑے کی اصل جڑ یہی ڈیورنڈ لائن ہے جس کی نذر دونوں ملک ہزاروں انسانی جانیں کر چکے ہیں اور ابھی یہ سلسلہ ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔

برطانوی ہندوستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کا باقاعدہ تعین نہ ہونے کی وجہ سے جھگڑے چلتے رہتے تھے۔ چنانچہ برطانیہ نے فیصلہ کیا کہ سرحد کا تعین کر کے اس جھنجٹ سے جان چھڑا لی جائے۔ چونکہ برطانیہ ایک طاقتور ہمسایہ تھا سو سرحد کے تعین میں برطانیہ ہی کہ مرضی چلی اور افغانستان کے امیر عبدالرحمان کو اپنے کئی علاقوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ سرحد کے تعین کے لئے برطانیہ نے سر مورٹیمور ڈیورنڈ(Mortimer Durand) کو بھیجا ۔ برطانیہ کی طرف سے ممکنہ سرحد کے حوالے سے ایک نقشہ پہلے ہی بھیجا جا چکا تھا۔ 1893ء میں سر ڈیورنڈ اور امیر عبدالرحمان کے درمیان سرحد کے حوالے سے  معاہدہ طے پا گیا ۔

1947ء میں جب برطانیہ نے ہندوستان کو آزادی دینے اور اسے دو ملکوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تو افغانستان نے ڈیورنڈ لائن معاہدے کے تحت جن علاقوں پر برطانیہ کی حکمرانی تسلیم کر لی تھی ان علاقوں کی واپسی کا مطالبہ کر دیا۔یہ مطالبہ برطانوی حکومت کے سامنے بھی رکھا گیا اور بعد میں پاکستان سے بھی کیا گیا جسے دونوں نے نظر انداز کر دیا۔ افغانستان نے اس کے ردعمل کے طور پر پاکستان کی اقوامِ متحدہ کی رکنیت کے فیصلے کیبھی مخالفت کی ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس وقت پختونوں میں سے کچھ لوگ پاکستان کا جب کے خدائی خدمت گار تحریک سے وابستہ لوگ ہندوستان کا حصہ بننا چاہتے تھے؛ افغانستان کا حصہ بننے کے حوالےسے کوئی قابلِ ذکر تحریک یا مطالبہ سامنے نہیں آیا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ دونوں ملکوں نے اس مسئلے کو کبھی کسی عالمی فورم پر نہیں اُٹھایا (یا کم از کم مجھے اس حوالے سے کوئی شواہد نہیں ملے)۔ دونوں ملکوں نے اس مسئلے کو سفارت کاری یا عالمی اداروں کی مداخلت کے ذریعے پر امن انداز میں حل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ دونوں ایک دوسرے کو تنگ کرنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا سبق سکھانے کی کوشش میں مصروف نظر آئے۔

پاکستان خود بھی سفارتی طریقوں سے مسائل حل کرنے کے آداب سے ناواقف ریاست ہے  (مثال کے طور پر پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو سفارتی سطح پر موثر انداز سے حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کرنے کی بجائے بار بار جنگجوؤں کو کشمیر بھیج کر کشمیر پر قبضہ کرنے کی کوشش  کی اور ہر بار رسوا ہوا ( اس کی تفصیل کے لئے الگ بلاگ کی ضرورت ہے)۔ پاکستان نے بھی اس مسئلے کو سفارتی سطح پر حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی حالانکہ جہاں تک میں نے اس مسئلے کے بارے میں معلومات اکٹھی کی ہیں اور اُن پرغوروفکر کیا ہے پاکستان کی پوزیشن خاصی مضبوط ہے اور سفارتی سطح پر پاکستان کی کامیابی کے امکانات کافی زیادہ ہیں۔ افغانستان شاید اسی لیے اس مسئلے کو عالمی سطح پراسی لئے نہیں اٹھاتا کہ اُسے اپنی پوزیشن کمزور ہونے کا احساس ہے۔

قصہ مختصر افغانستان نے پاکستان میں پختونستان بنانے کی تحریک شروع کرنے کی کوشش کی۔ مجھے ٹھیک سے اندازہ نہیں کہ افغانستان اس میں کس حد تک کامیاب رہا لیکن یہ ضرور ہے کہ پاکستان میں خدائی خدمت گاروں پر پاکستان سے غداری کے الزامات ضرور لگے (یاد رہے کہ  باچا خان نے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کی رکنیت اختیار کی تھی اور پاکستان کے آئین کے تحت حلف بھی اُٹھایا تھا)۔ خیر موجودہ دور میں ہمیں پختونستان کی تحریک عملی طور پر کہیں نظر نہیں آتی۔

پاکستان نے بھی اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے یہ سوچا کہ افغانستان کو اپنی جگہ مسائل میں یوں الجھا دیا جائے کہ وہ ڈیورنڈ لائن کے مشرقی علاقوں پر دعوے کے قابل ہی نہ رہے۔ ایسی کوششوں کے ثبوت بھٹو دور میں بھی  ملتےہیں جب پاکستان نے گلبدین حکمتیار، احمد شاہ مسعود اور دیگر افغانیوں کو پاکستان میں پناہ دی اور انہیں افغانستان میں مسائل کھڑے کرنے کے لئے استعمال کیا(یاد رہے کہ اس وقت تک روس نے افغانستان میں اپنی فوجیں نہیں بھیجی تھیں)۔

اتفاق یہ ہوا کہ بھٹو کے جاتے ہی روس افغانستان میں داخل ہوا جس کے نتیجے میں سی آئی اے مارکہ جہاد کے دروازے کھل گئے اور پھر ڈیورنڈ لائن کا نام ہی کہیں کھو گیا۔ تاہم میری ذاتی رائے یہ کہ کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے لاشعور میں کہیں یہ مسئلہ اٹکا ہوا تھا جس کی وجہ سے روس کی واپسی اور سی آئی اے مارکہ جہاد کے خاتمے کے باوجود پاکستان نے افغانستان میں مداخلت جاری رکھی اور اس کوشش میں لگا رہا کہ وہاں کوئی پاکستان دوست حکومت آجائے (جلال آباد کو فتح کرنے اور افغانستان کو پانچواں صوبہ بنانے کے خواب اسی سوچ کا شاخسانہ ہیں) جو ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کر لے۔

طالبان کو بنانے، انہیں افغانستان پر قبضہ کرنے میں مدد دینے اور پھر ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا ایک مقصد یہی تھا کہ ان سے ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کروا لیا جائے۔اس میں دو باتیں پاکستان کے حق میں نہیں گئیں۔ پہلی بات یہ کہ طالبان حکومت کو پاکستان اور سعودی عرب کے علاوہ کسی بھی ملک نے افغانستان کی جائز /نمائندہ حکومت تسلیم نہیں کیالہٰذا ان کی طرف ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہوتی۔  مگر دوسری بات یہ ہوئی کہ طالبان نے بھی  اس حوالے سے پاکستان کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔  سال 2001ء میں فرائیڈے ٹائمز میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان نے اس سرحد کو تو کیا کسی بھی سرحد کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا  کہ مسلمانوں کے درمیان کسی قسم کی سرحدیں نہیں ہونی چاہئے۔ طالبان کے بعد حامد کرزئی نے  ڈیورنڈ لائن پر یہ تبصرہ کیا: “نفرت کی لکیر جس نے دو بھائیوں کے درمیان دیوار کھڑی کر دی ہے”۔

قصہ مختصر یہ کہ جس طرح کشمیر کا مسئلہ بار بار کشمیر میں مجاہدین  بھیجنے سے حل نہیں ہوا، اسی طرح ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ بھی افغانستان میں طالبان بھیج کر حل نہیں ہوا اور نہ ہی مستقبل میں ایسا ہونے کا امکان ہے۔ پاکستان کوآج نہیں تو کل یہ بات سیکھنی ہوگی کہ ایسے مسائل بہر حال سفارتی طریقے ہی سے حل ہوتے ہیں۔  مگر مصیبت یہ ہے کہ پاکستان میں خارجہ پالیسی ماسوائے ابتدائی چند سالوں کے ہمیشہ سے غیر سفارتی لوگوں یعنی جرنیلوں کے قبضے میں رہی ہے۔ جرنیلوں کی تربیت ہی سفارت کاری کے لئے نہیں بلکہ مرنے مارنے کے لئے ہوئی ہوتی ہے لہٰذا ان سے سفارتی حل کی توقع بہت مشکل ہے

Leave a comment